تحریر: سردار فواد کلیم
حال ہی میں نیب کے نئے چیئرمین کیلئے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو تعینات کر دیا گیا ہے ۔اور یاد رہے اس مشاورت میں حکومت اور اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی اور حکومت کی دیگر اتحادی جماعتیں شامل رہی ہیں اور یہ نام پیپلزپارٹی کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جناب خورشید شاہ نے دیا تھا اور حکومت نے اس نام کی منظوری دے دی ۔تحریک انصاف اس مشاورت کا حصہ نہیں بنی ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نیب کے سابق چیئرمین چوہدری قمر زمان کی طرح ہی رہے تو تحریک انصاف کا سخت ردعمل آ سکتا ہے ۔ ابھی صورتحال یہ ہے کہ نیب مافیا کے آگے بے بس نظر آتی ہے ۔آحتساب عدالتوں سے وفاقی وزراء نے سازش کر کے رینجرز کو ہٹوا دیا ہے ۔ کیونکہ رینجرز بھی پاک فوج کا حصہ ہے اور وہ قانون کی عملداری کے لیے سختی سے پیش آتی ہے وہ کوئی رعایت نہیں دیتے خواہ کوئی وزیر ہے یا کوئی بھی بیوروکریٹ ہے ۔ وہ قانون کے آرڈر کے پابند ہیں ۔ آج کراچی میں جو امن بحال ہوا ہے وہ رینجرز کی وجہ سے ممکن ہوا ہے ۔آج جو کراچی کی روشنیاں دوبارہ لوٹ آئیں اس کا سہرا رینجرز کے سر پر ہے۔ ملک اور قوم کی حفاظت کیلئے وہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔ بہرحال آگے چلتے ہیں جب کیپٹن صفدر اور مریم نواز اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے تو پہلے ہی احتساب عدالت نے کیپٹن صفدر کے ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کئے ہوئے تھے اور مریم نواز کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کئے گئے تھے ۔ تو نیب حکام کی 13 رکنی ٹیم کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنے اسلام آباد ائرپورٹ پہنچ گئی اور وہاں مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی گئی اور کیپٹن صفدر کو گرفتار کر لیا گیا ۔اور وہاں نواز لیگ کے کچھ معلوم اور کچھ نا معلوم لوگوں نے پہلے ہی پری پلان کرکے وزراء کی مدد سے راول لاونج میں موجود تھے تو انہوں نے وہاں نیب حکام کو کیپٹن صفدر کی گرفتاری سے روکتے رہے ۔انہوں نے پہلے سے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایسا ڈرامہ رچایا کہ ہم نے ایسا ایسا کرنا ہے ۔تو چنانچہ جب کیپٹن صفدر کو نیب حکام نے اسلام آباد ایئرپورٹ کی راول لاونج سے گرفتار کر لیا ۔وہاں نون لیگ کے کارکنوں نے عدلیہ اور فوج کے خلاف نعرے بازی کی اور بار بار قانون کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی ۔عام حالات میں اسلام آباد ایئرپورٹ کی راول لاونج میں عام آدمی نہیں جا سکتا خواہ اس کے پاس ٹکٹ بھی ہو وہاں سیکورٹی کے لوگ تعینات ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں دوسرے گیٹ سے جاو ۔کیونکہ وہاں صرف وی آئی پی لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت ہے ۔ لیکن اس دن کیسے عام کارکنوں کو داخلے کی اجازت دی گئی ۔ اس کام میں کون ملوث ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیئے ۔پھر جب کیپٹن صفدر کو نیب نے گرفتار کر کے گاڑی میں بیٹھایا اس کے بعد نواز لیگ کے کارکنوں نے اور اس میں وفاقی وزرا بھی شامل تھے تقریبا 50 منٹ تک ائرپورٹ کے باہر گاڑی کو روکے رکھا اور اس دوران کارکنوں نے نیب حکام کو ہراساں کیا اور گاڑی کے اوپر چڑھ گئے اور گاڑی کو مکے لاتیں مارتے رہے اور عدلیہ اور فوج کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ اور گاڑی کے آگے لیٹ کر سلفیاں بھی بناتے رہے ۔اس دوران اسلام آباد پولیس کی باری نفری تعینات ہونے کے باوجود اور اس کے علاوہ اے ایس ایف بھی خاموش تماشائی بنے رہے انہوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی ۔ نواز لیگ کے کارکن جو پے رول پر تھے غالبا دو درجن کے قریب تھے اور وفاقی وزراء بھی شامل تھے جو اپنی شریف خاندان کے ساتھ وفاداریاں نبھانے یہاں پر آئے ہوئے تھے ۔ جب یہ ڈرامہ میڈیا نے رپورٹ کیا تو پوری دنیا نے دیکھا جس سے ملک کی بدنامی ہوئی ۔آخر تقریبا ایک گھنٹے کے بعد نواز لیگ کے کارکنوں کو اسلام آباد سے کسی اعلی حکام اشارہ ملا تو اس کے بعد انہوں نے راستہ کلئیر کیا اور گاڑی کو جانے کی اجازت دی رات کو کیپٹن صفدر کو اسلام آباد نیب کے میلوڈی آفس کے خصوصی سیل میں رکھا اور صبح ان کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا اور پھر ان کو ضمانت پر رہائی دے دی گئی ۔حکومت کی پوری کوشش ہے شریف خاندان کو بچانے کے لیے قانون کے عمل میں خلل ڈالتے رہیں ۔اور آئینی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی جاری رکھی جائے تاکہ فوج حرکت میں آئے اور مارشل لاء نافذ ہو جائے یعنی اس کا مطلب جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنا ہے ۔ حکمران جماعت کو خوف ہے کیونکہ آئندہ کسی طرح سے تحریک انصاف کی وفاق میں گورنمنٹ نہ بنے اس لیے سب کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ ” صنم ہم تو ڈوبے اور ساتھ تجھے بھی لیکر ڈوبیں گے” یہ نواز لیگ کا ٹرینڈ بن گیا ہے ۔ان کو نظر آ رہا ہے جس طرح کہ ناقابل تردید ثبوت اداروں کے پاس موجود ہیں اب شریف خاندان سمیت 80 فیصد پارلیمنٹ کا بچنا مشکل نظر آتا ہے ۔ چند مفاد پرست وزراء اور مشیر شریف خاندان سے اپنی وفاداری نبھانے کے لیے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جو کہ نہایت ہی شرمناک اقدام ہے ۔ دنیا کے کسی ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے کہ جمہوریت میں حکومت عدلیہ اور فوج کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرے اور قانون کے عمل میں رکاوٹ ڈالی جائے ۔ایسی مضائقہ خیز باتیں جمہوری نظام کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔جیسے ایک آدمی کو بچانے کے لیے حکومت نے آئین میں ترمیم کر ڈالی اس سے ایسا ممکن بنا دیا گیا ہے پاکستان میں کوئی بھی مجرم چور ،ڈاکو، قاتل اور بدمعاش بددیانت آدمی سیاسی عمل کا حصہ بن سکتا ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت کا صدر بن سکتا ہے ۔ اس ترمیم سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس سے انصاف کے عمل کو نقصان پہنچے گا ۔اب دیکھنا ہو گا سپریم کورٹ میں اس ترمیم کے خلاف کیس زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ کیا کارروائی کرتی ہے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔یہ صرف عدلیہ کو دباو میں لانے کے کے لیے ایسا اقدام کیا گیا ہے ۔جمہوریت میں آئین میں ترمیم کے لیے فرد واحد کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا بلکہ پاکستان کی ساری عوام کے وسیع تر مفاد میں قانون بنائے جاتے ہیں ۔جس سے قوم کی ترجمانی ہوتی ہے اور انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں ۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں مافیا قانونی اداروں کے خلاف برسرپیکار ہے جو پبلک انٹرسٹ کو بھی دھجیاں اڑا رہی ہے ۔عوام ان کے گھناؤنے کام پہچان لیں اور 2018 کے عام انتخابات میں اس مافیا کو سیاست سے بے دخل کر کے تاریخ رقم کر دیں۔ جب تک ایسا نظام رہے گا عام آدمی پستا ہی رہے گا اور اس کا معیار زندگی کہبھی بھی بلند نہیں ہو گا ۔ اس لیے عدلیہ اور فوج کی سپورٹ کے لیے عوام کو آگے آنا چاہئے ۔ عوام کو سب کچھ نظر آ رہا ہے اس لئے عوام کو سوچنا چاہئے کہ کون ملک کے مفاد کے لیے کام کر رہا ہے اور کون پاکستان مخالف دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے ۔ کس کا سب کچھ پاکستان میں ہے اور کس کا سب کچھ پاکستان سے باہر ہے ۔ صرف حکومت کرنے اور لوٹنے کے لیے پاکستان آتے ہیں ۔ عوام اپنی ووٹ کی طاقت سے ان کا محاسبہ کرے اور ان کیفرکردار تک پہنچائے ۔ عوام اپنی بھرپور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور آئندہ الیکشن میں اپنا ووٹ صحیح لوگوں کو دے ۔ جن کا جینا مرنا سب کچھ پاکستان میں ہی ہو ۔