گاندھی کے چیلے۔۔۔

0
10

تحریر : سراج احمد تنولی
ضیا شاہد پاکستان کے منجھے ہوئے نامور صحافی ہیں ۔اس وقت ضیا شاہد روزنامہ خبریں اور نیا احبار کے چیف ایڈیٹرہیں ۔پاکستان میں صحافت کے شعبے میں انہیں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے صحافت کے فروغ کیلئے انہوں نے لازوال خدمات سر انجام دیں ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں آزادی صحافت کی پاداش میں سات ماہ کی سزا کاٹی ۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں انہیں اعلی سول اعزاز ستارہ امتیاز بھی مل چکا ہے اور لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی ان کا مقدر ٹھہرا۔ اس کے ساتھ وہ ڈھیر ساری کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب ــ ’گاندھی کے چیلے‘ شائع ہوئی جو انکشافات سے بھرپورہے۔یہ کتاب شائع کرنے کا شرف قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کو حاصل ہواجس کے بانی عبدالستار عاصم ہیں۔
گاندھی کے چیلے نامی کتاب میں انہوں نے گاندھی کے پائوں دھونے والے سابق صوبہ سر حد کے سرخ پوش غفار خان ، ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب اور بیٹے ولی خان کی پاکستان دشمنی اور انگریز اور ہندو کے ایجنٹ ہونے کی خوفناک اور اندرونی داستان تحریر کی ہے ۔ یہ کتاب بقول منصف اس وقت لکھنا شروع کی گئی جب سرحدی گاندھی کے بیٹے عبدلولی خان نے اپنی کتاب Facts are Facts یعنی حقائق حقائق ہیں لکھی اور دعوی کیا کہ اس نے برٹش انڈیا لائبریری لندن میں موجود دستاویزات پر ریسرچ کی ہے اور یہ بد بودار الزام بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پر لگایا کہ 23مارچ 1940کو دو قومی نظریہ یعنی ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں پیش کرنے والے قائداعظم (خدا نخواستہ)انگریز کے ایجنٹ تھے اور پاکستانی مسلمانوں کے سیاسی معاشرتی اور معاشی حقوق کے بجائے انگریز کی سازش کا نتیجہ تھا۔
ان شرمناک الزامات کے بعد کوئی بھی محب وطن پاکستانی خاموش نہیں رہ سکتا ہر سچا پاکستانی پاکستان بننے کے بعد اس کے لیے جان نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیا ر ہے اور اپنے محبوب لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح پر اس قسم کے سنگین الزامات کو برداشت نہیں کر سکتا۔عبدالغفار خان سرحدی گاندھی بھارتی گاندھی کے پائوں دھویا کرتے تھے ہر وقت بھارتی گاندھی کی آئو بھگت میں مصروف رہتے تھے ۔ ضیا شاہد نے اپنی کتاب میں مزید انکشافات کرتے ہوئے ولی خاندان سے جوابات کا بھر پور مطالبہ کیا ہے۔۔۔ ولی خان کے آبائو اجداد کو برطانوی حکومت کی طرف سے جاگیریں ملیں اور ’خان صاحب ‘ بنایا گیا ۔ غفار خان کے والد خاص طور پر انگریز حکومت کے بہت خیر خواہ رہے اور اس خاندان کے اکثر لوگوں نے 1857کی جنگ آزادی میں انگریز کا ساتھ دیا۔ ولی خان کے تایا یعنی خان صاحب نے سرحد کی وزارت اعلی سے بھی پہلے انگریزوں سے بہت راہ و رسم رکھی۔ ان کی بیگم انگریز خاتون تھی۔ انہوں نے اپنا اصل نام جبار خان ساری عمر استعمال نہیں کیا بلکہ انگریز کے عطا کردہ خطاب خان صاحب ہی کو نام بنا لیا۔ یہ نام کا حصہ نہیں ’سر‘ اور ’خان بہادر‘ کی طرح خطاب کے الفاظ تھے ۔
باوجود اس امر کے کہ ڈاکٹر خان صاحب صوبے کے وزیرا علی رہے اور ان کی حالت کسی بھی اعتبار سے مالی امداد کی مستحق نہیں ہو سکتی تھی۔ ان کی بیگم کو برطانوی حکومت حفیہ طور پر وظیفہ دیتی رہی۔کیوں؟
یہ وہ چند الزامات ہیں جو مصنف نے مختلف کتابوں میں سے اقتباسات لے کر حقیقتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے خان برادران کے مذہبی نظریات کے متعلق بھی خوفناک انکشافات کیے ہیں ۔سرحدی گاندھی کی قبر افغانستان میں ہونا آج بھی اس کی علیحدگی پسندی کو ظاہر کرتی ہے۔ میرے خیال میں اجمل خٹک کے دیے گئے ثبوت اور دلائل ہی کافی ہیں جنہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اے این پی کو خیر آباد کہہ دیا تھا اوراپنے آپ کو ولی خان کی سوچ سے یکسر علیحدہ کر دیا تھا۔ مصنف نے کتاب کے شروع میں قارئین کو یقین دلایا کے اس کتاب کا ایک ایک لفظ سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں ۔