سکندر حیات کا کشمیر فارمولا

0
13

آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم و صدر سردارسکندر حیات خان دو بار آزادکشمیر کے وزیراعظم اور ایک بار صدر ریاست رہے ہیں، مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے انہوں نے مشرف دور میں ایک فارمولا دیا تھا جسے چناب فارمولا کہا جاتا ہے، چناب فارمولا یوں تو 1960 میں پیش کیا گیا تھا مگر اسے پذیرائی پرویز مشرف دور میں ملی جب آزادکشمیر کے وزیراعظم سردار سکندر حیات خان نے یہ فارمولا دوبارہ پیش کر کے ریاست بھر میں خود کو کافی متنازعہ بنایا اور ریاست بھر کی نمائندہ سیاسی جماعتوں نے اس فارمولا کو مسترد کر دیا تھا۔ اس فارمولا کے تحت دریائے چناب کے دو کناروں کو تقسیم جموں و کشمیر قرار دیکر دریائے چناب کو بائونڈری لائن قرار دیا جاتا جس سے بھارت 80% کشمیر سے محروم ہو جاتا جبکہ بھارت کو اس فارمولا کے تحت جموں اور لداخ کا بڑا حصہ مل جاتا۔ اس فارمولا کی مزید تفصیلات پھر کبھی اس وقت سردار سکندر حیات خان نے نیا کشمیر فارمولا پیش کر دیا ہے جس پر حمایت اور مخالفت میں بیان بازیوں کا نیا لامتناعی سلسلہ شروع ہوا ہے۔ سردار سکندر حیات خان نے ریاست جموں وکشمیر کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی بات کی ہے۔ سردار سکندر حیات خان نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے ، ہندو اکثریتی علاقے بھارت جبکہ پاکستان کو مسلم اکثریتی علاقے مل جائیں گے اور یوں تقسیم کشمیر کا فارمولا دنیا کے نقشے سے جموں و کشمیر نامی منقسم ریاست کے خاتمے کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچے گا۔ ریاست جموں و کشمیر کا 70 سال پرانا مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تاہم آزادکشمیر اور پاکستان کی طرف سے ایسے فارمولے دے دے کر تحریک آزادی کشمیر کو ہمیشہ ہی نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے۔ سردار سکندر حیات خان کے حالیہ فارمولا پر اگر دیکھا جائے تو کچھ حد تک معقول بات بھی لگتی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کا سارا زور وادی کشمیر میں ہے جبکہ لداخ اور جموں میں آزادی کی تحریکیں دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں جبکہ گلگت اور بلتستان کے علاقوں کے باسی خود کو نہ تو کشمیری کہلوانا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے پر راضی ہیں۔ بات کڑوی ضرور ہے مگر نگلنی پڑے گی کہ لداخ اور جموں کے علاقوں میں بھی گلگت اور بلتستان کی طرح کشمیر سے علیحدہ اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ لداخ میں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت ہے جبکہ جموں میں ہندومت کے پیروکار اکثریت میں ہیں، وادی کشمیر اور پونچھ میں مسلم اکثریت ہے جبکہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں 99 فیصد مسلم اکثریت ہے۔ جموں کے مضافاتی علاقوں میں بہت بڑی مسلم آبادی ہے۔ اگر سردار سکندر حیات خان کا مذہبی بنیادوں پر تقسیم کشمیر کا فارمولا مان لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جموں کے مضافاتی علاقے راجوری کے مضافاتی علاقے جہاں مسلمانوں کی آبادی ہندو آبادی سے زیادہ ہے انکا کیا بنے گا کیونکہ مذہبی بنیادوں پر تقسیم بھی ریجن کی سطح پر ہوگی جس سے وہ مسلم اکثریتی چھوٹے شہر بھی جموں کی اکثریتی ہندو آبادی کے ساتھ چلے جائیں گے جبکہ لداخ میں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے مگر ہے تو سہی۔ اسی طرح وادی کشمیر ، پونچھ اور آزادکشمیر کے مستقبل کا کیا فارمولا طے ہو گا جبکہ سردار سکندر حیات خان گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی بات کر رہے ہیںیقینا انکا مطلب یہی ہے کہ گلگت اور بلتستان کے پاکستان کے ساتھ انضمام کے ساتھ ضروری نہیں آزادکشمیر اور وادی کشمیر کا انضمام یا الحاق پاکستان کے ساتھ ہو یوں وہ ریاست کے ایک بڑے حصے میں خودمختاری کی درپردہ حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اگر وہ خودمختار کشمیر کی ہی درپردہ حمایت کر رہے ہیں تو خودمختار کشمیر کی حمایت تو جموں، لداخ ، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور وادی کشمیر میں بھی ہے پھر تقسیم کیوں؟

سردار سکندر حیات خان کے اس فارمولا پر کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں اور یہ سوالات آزادکشمیر کے سیاست دان اٹھا بھی رہے ہیں، صدر پاکستان پیپلز پارٹی آزادکشمیر چوہدری لطیف اکبر نے کہا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم قابل قبول نہیں ہے ، انہوں نے سردار سکندر حیات خان کے فارمولا کو مسترد کیا ہے اور خوب تنقید کی ہے تاہم وہ گلگت بلتستان کے اپنے دور حکومت میں پاکستان کا صوبہ بنائے جانے اور آزادکشمیر اسمبلی سے اس اقدام کے حق میں قرارداد لانے کے عمل پر خاموش ہیں جو واضح کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی محض پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے اگر لاڑکانہ اس فارمولے کی حمایت کر دے تو شائد لطیف اکبر کے خیالات بدل جائیں گے۔

آزادکشمیر کے بزرگ پارلیمنٹیرین و لیگی رکن اسمبلی راجہ عبدالقیوم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ سکندر حیات کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے فارمولا کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے اس فارمولا کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا دینا چاہئے۔ سکندر حیات کے اس فارمولا پر قوم پرست تنظیموں و رہنمائوں نے بھی اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے جبکہ راجہ فاروق حیدر خان اپنے ’’سرپرست اعلیٰ ‘‘ کے اس فارمولا پر نہ حق میں بولے ہیں نہ مخالفت میں جبکہ صدر خارجہ آزاد ریاست جموں و کشمیر جنکا قلم زبان اور قدم مسئلہ کشمیر کے لئے ہی چلتے ہیں وہ بھی اس بیان پر مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یقینا سکندر حیات خان کے اس فارمولا پر بات ہونی چاہئے اور حق و مخالفت میں دلائل سامنے آنے چاہئیں تاکہ 70 سالوں سے مسئلہ کشمیر جسے ہمیشہ اجاگر ہی کیا جاتا رہا ہے اسکے عملی حل کی جانب بھی پیش قدمی ہوتی دکھائی دے سکے، مسئلہ کشمیر کے قابل عمل حل کے لئے تمام تجاویز اور قابل عمل باتوں پر بحث ہونی چاہئے تاکہ ہم اپنی نئی نسل میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کی تحریک چھوڑ کر جائیں۔