تحریر: سراج احمد تنولی
بر صغیر کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک قدیم ترین زبان ہندکو ہے جو صدیوں سے یہاں موجود تھی بعض مئورخین کا کہنا ہے کہ یہ زبان گندھارا تہذیب سے قبل بھی یہاں تواتر سے بولی جاتی تھی ۔ جو آج تک پاکستان کے صوبے خیبر بختونخوا کے علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہزارہ کے تقریباًسارے ہی علاقوں میں ہندکو زبان بولی جاتی ہے۔ آج بھی ہندکو ثقافت ، آرٹ کا ورثہ، آثار قدیمہ اور سکوں کا ہزارہ میں موجود ہونا ہندکو زبان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔زبان اور بولی میں فرق بھی شاید یہی ہوتا ہے کہ بولی صرف اور صرف بولی جاتی ہے جبکہ زبان تاریخی ثقافت رکھتی ہے جو شعر و ادب سے اپنی تکمیل کو پہنچتی ہے۔ اس لیے ہم آج ہندکو زبان کی تاریخ اور شعر و ادب کو انہی خطوط پر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ویسے تو آج کل بہت سی کتابیں ہند کو ادب پر چھپتی ہیں ۔ اگر ہم ہندکو کے قدیم شعراء و مصنفین کا ذکر کریں تو ان میں ہندکو کے بڑے شاعر استاد رحمت خان رحمت ، استاد محمد دین مایوں، استاد شادا، بابا وجیدہ اور استاد سائیں احمد علی پشاوری قابل ذکر ہیں۔ ہندکو شعری رسم الخط میں بہت سے شعراء نے کام کیا ۔
احمد حسین مجاہد صاحب بھی انہی شعراء میں سے ایک ہیں جنہوں نے بقول اختر رضا سلیمی کے ہندکو نظم کا ایک ایسا ظویل راستہ بنا دیا ہے اس کے بعد آنے والوں کے لیے اس سے بچ کے چلنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔ حال ہی میں ان کی منظوم لوک داستان پر مشتمل شعری مجموعہ ـ ’قینچی‘ شائع ہوا ہے جو کہ شائع ہوتے ہی قارئین کی توجہ کا مرکز بنا اور خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ ہندکو ادب کے لیے شاہکار ثابت ہو گا۔ اب منظوم لوک داستان سے چند اشعار قارئین کی نظر کرتا ہوں ۔۔۔
سڑے دے مقدر ، حلیمہ نہ آئی
اس اگ باہ کے پہیجی اے لسی دی جائی
میں فر پہانویں ہر کہار سی خیر پن دا
حلیمہ کو ہک واری فر دیخ کہن دا
حلیمہ نہ دیخی تے جیساں نہ مرساں
بنڑاں بچ حلیمہ حلیمہ میں کرساں
اگر ہم نثری تحقیق وتنقیدی کام کے حوالے سے ذکر کریں تو مختار علی نیر اور خاطر غزنوی قابل ذکر ہیں ۔ مختار علی نیر نے ہندکو ادب میں طنزو مزاح کے حوالے سے کافی شہرت پائی۔ہندکو ادب میں نثر پر بہت کم کام ہوا ہے۔ سید ماجد شاہ صاحب بھی ہندکو ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والے چمکتے ستارے ہیں۔ عنقریب اردو ادب میں اگر نثری ادب کے حوالے سے کسی کے رسم الخط کو فروغ ملا تو وہ انہی کو ملے گا۔ سید ماجد شاہ ایک بہترین افسانہ نگار ہیں ، اردو اور ہندکو ادب میں ان کا ایک بڑا نام ہے۔ حال ہی میں ان کی کتاب ’اورش ‘ منظر عام پر آئی جو ہندکو افسانوں کے مجموعے پر مشتمل ہے۔ اورش جھیل کے نام سے اس کتاب کا ٹائیٹل ہے۔ ان کے افسانوں میں ہندکو زبان بولنے والوں کی ثقافت ، کلچرو تمدن سے بھر پور کردار نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانے پڑھتے ہوئے پڑھنے والا افسانے کے اندر گھسا جاتا ہے یوں لگتا ہے کردار ہمارے سامنے چلتے پھرتے ہوں جیسا تھری ڈی ٹیکنالوجی میں ہوتا ہے ۔ ان کے افسانے دیہاتوں کی زندگی اور جدید زندگی کے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ میرے لیے یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ وہ اپنی اور ہماری مادری زبان کا حق ادا کر رہے ہیں۔ آخر میں ان کے افسانے ’اکھیاںبچ شیشے ‘ سے چھوٹا سا اقتباس قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں۔۔
’ امریزاں مزماناں کول گئی تے مائو آخیاس : امریزاں ماسی آں سلام کر تے چاء بنڑا کے آنڑ۔ ماسی امریزاں آں دیخ کے خوش ہوئی۔ میری تہی! میرا کلیجہ! آخ کے گلے نال لایاس ، پیار کیتاس ، اتنا دلوں تے اساں کدے سکی مائو وی لاڈ پیار نینھ کیتا ایہا۔ اساںحیرت ہوئی اس توں پہلے کسی بڈ بڈیری اس نال ایہجا سلوک نینھ کیتا ایہا۔ بے بے خوش ہو کے ماسی آں آخیے :امریزاں ہنڑ تساں دی تہی اے۔ تساں دے بڈھیمے کا سہارا وی بنڑسی تے انشاء اللہ پتر ’حافظ جی‘ دیاں اکھیاں وی۔
اس لفظ ’حافظ جی ‘ سنڑیاں تے اس دے ہتھے بچوں بخشے دیاں بساکھیاں ٹیہہ کے انہیرے کھوئے بچ جل لگیاں‘۔