Sargaram | Newspaper

بدھ 09 اکتوبر 2024

ای-پیپر | E-paper

اگلی تاریخ پر لاپتہ طلباء بازیاب نہ ہوئے تو وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ پر پرچہ کاٹنے کا حکم دوں گا،: جسٹس محسن اختر کیانی

Share

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ اگلی تاریخ پر لاپتہ طلباء بازیاب نہ ہوئے تو وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ پر پرچہ کاٹنے کا حکم دوں گا، کسی ایجنسی کو استثنیٰ نہیں کہ جس کو چاہے برسوں کے لیے اٹھا کر لے جائے، بعد میں تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او کی تحویل میں دیدے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلباء بازیابی کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے کیس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔

درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔

لاپتہ بلوچ افراد کی فیملیز، نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی اور نگراں وزیرِ انسانی حقوق خلیل جارج عدالت میں پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ بلوچ طلباء کو بازیاب کروا لیا گیا ہے، وہ گھر پہنچ چکے ہیں، 28 بلوچ لاپتہ افراد ابھی بھی لاپتہ ہیں، وزیرِ اعظم بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے نہیں آ سکے، یقین دہانی کراتا ہوں کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کی کوششیں کریں گے، کمیشن کی رپورٹ نگراں وفاقی کابینہ کے سامنے گئی تھی، کابینہ کی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کو یہ معاملہ بھیجا گیا، کمیشن کو آرڈر تھا کہ ایکشن سے متعلق تجاویز دیں، 28 طلباء کے شناختی کارڈز کی تفصیل نہ ہونے کے باعث وہ تاحال لاپتہ ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ سادہ سی بات ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے، سارے لاپتہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس ہیں، کیا وہ پاکستانی شہری نہیں؟ یہ رپورٹ بادی النظر میں ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں کوئی لاء اینڈ آرڈر نہیں، جس کا جو جی میں آئے وہ کیے جا رہا ہے، سارا الزام اسٹیٹ ایجنسیز پر ہے، یہ ہمارے شہری ہیں، ان کی مائیں، بہنیں اور بھائی رو رہے ہیں، وہ بلوچستان سے چلتے ہیں یہاں کمیشن کے سامنے آ کر پیش ہوتے ہیں، جو دہشت گرد ہیں ان کے خلاف کارروائی کریں، عدالت میں پیش کریں۔

انہوں نے کہا کہ کیا کسی مہذب معاشرے میں یہ کام ہوتے ہیں؟ جو بھی لاپتہ شخص بازیاب ہوتا ہے وہ آ کر کہتا ہے کہ میں کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا،  بند کمروں میں نہ کہانی سنائیں گے نہ بند کمروں میں کسی کی سنیں گے، جو کہنا ہے اوپن کورٹ میں کہیں۔

عدالت نے وزیرِ داخلہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج 22ویں سماعت ہے، آپ نے ساری ایجنسیز کو بلا کر پوچھنا تھا۔

نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ کمیشن نے بہت سی چیزوں کو نہیں دیکھا، بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ یہاں سے لوگ افغانستان چلے گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جبری گمشدگی والے کیسز میں لوگ آپ کے اپنے اداروں کے پاس ہیں، ایک طرف مخصوص ادارے پر الزام ہے، انویسٹی گیشن بھی انہوں نے کرنی ہے، سیکریٹری دفاع ذمے دار ہیں کہ ان کے ادارے کسی ایسے کام میں ملوث نہ ہوں، جبری گمشدگی کیسز کا حل نکال کر رہا کریں یا عدالت میں پیش کریں، آج تک کسی ریاستی ادارے کو ذمے دار ٹھہرا کر کارروائی کیوں نہیں ہوئی ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مانتے بھی نہیں ہیں کہ یہ جبری گمشدگی کے کیسز ہیں۔

سرفراز بگٹی نے کہا کہ بہت سارے کیسز ایسے بھی ہیں جن میں سیکیورٹی فورسز سے لڑتے ہوئے مارے گئے، ایک شخص بھی لاپتہ ہے تو وہ ہماری ذمے داری ہے اور ہم ڈھونڈیں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ اور وزیرِ اعظم بلوچستان سے ہیں، کل آپ نے واپس جانا ہے، ادارے سارے سیکریٹری دفاع کے ماتحت ہیں، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، ججز نے جا کر بندے ریکور نہیں کرنے، ہم ججمنٹس دے سکتے ہیں، یہ ملک شہداء کی بنیاد پر چل رہا ہے، پاک فوج نے جو قربانیاں دیں اس سے انکار نہیں، کوئی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہو تو قانون کے مطابق کارروائی کریں،عدالت میں لائیں۔

نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ ایک ایک کیس کو ہم دیکھیں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ملک کے امن کے لیے اداروں کی قربانیاں ہیں، شہداء کی قربانیاں موجود ہیں ان میں کوئی شک نہیں، دوسرے پہلوؤں کو بھی نہیں چھوڑا جاسکتا، شہریوں کے حقوق ہیں۔

عدالت نے تمام لاپتہ افراد کی فیملیز کی تفصیلات حکومتی کمیٹی کو دینے کی ہدایت کر دی۔

وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ جن افراد کا بتایا کہ بازیاب ہوگئے میں نے ابھی وہ چیک کرنا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی کفالت ریاست کی ذمے داری ہے، لاپتہ افراد کے لواحقین کی کفالت کی بات تمام ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں میں طے ہوئی، لواحقین ریاست اور ریاست کے اداروں کے اعلیٰ افسران پر ہرجانے کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں، سیکریٹری دفاع اور متعلقہ اداروں کو بھی ملزم نامزد کر سکتے ہیں، اس بچی کو کیا جواب دیں گے؟ ہے کوئی جواب آپ کے پاس؟ آپ کے پاس اور عدالت کے پاس اِس بچی کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں، لگتا ہے ہم سب اغواء ہوں گے تو ہم سیکھیں گے، اگلی تاریخ پر لاپتہ طلباء برآمد نہ ہوئے تو وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ پر پرچہ کاٹنے کا حکم دوں گا۔

جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ سیکریٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ پر بھی پرچہ کاٹنے کا حکم دوں گا، پھر آپ سب کو گھر جانا ہو گا، آئندہ تاریخ پر مجھے یہ بچی یہاں آکر کہے کہ میرا بھائی واپس آگیا ہے۔

Share this Article
- اشتہارات -
Ad imageAd image