پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے جہاں سیاسی اختلافات کا ہونا معمول کی بات ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں یہ اختلافات نہ صرف شدت اختیار کر گئے ہیں بلکہ قومی مفادات پر منفی اثر ڈالنے لگے ہیں۔ جمہوریت کا بنیادی اصول اختلاف رائے کو تسلیم کرنا اور مسائل کے حل کے لیے گفت و شنید کو اپنانا ہے، مگر پاکستان میں سیاسی اختلافات اکثر ذاتی دشمنیوں، الزام تراشیوں اور بداعتمادی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس رویے کا نتیجہ قومی اداروں کی کمزوری اور عوامی اعتماد کی کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ اس وقت غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں، اور سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر فوقیت دی جا رہی ہے۔ اس رویے نے نہ صرف عوام کو تقسیم کر دیا ہے بلکہ ملکی معیشت اور ترقی پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی کمی نے عوام کو مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے، جبکہ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے بیچ جاری رسہ کشی سے گورننس کے معاملات شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
عوام مہنگائی، بے روزگاری، اور عدم استحکام جیسے مسائل سے دوچار ہیں، مگر سیاسی قیادت اپنی ذاتی ترجیحات میں مصروف نظر آتی ہے۔ پارلیمان میں قانون سازی کا عمل بھی تعطل کا شکار ہے، جس سے نہ صرف عام شہریوں کے مسائل حل نہیں ہو پا رہے بلکہ سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ عوام میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کے لیے عوامی مسائل کو نظرانداز کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی الزام تراشی نے سیاسی ماحول کو مزید خراب کر دیا ہے۔ مختلف سیاسی رہنماکی غیر ذمہ دارانہ بیانات اور الزامات نہ صرف سیاسی تقسیم کو بڑھا رہے ہیں بلکہ عوام میں عدم برداشت کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ یہ صورتحال ایک ایسے ملک کے لیے تشویشناک ہے جو پہلے ہی مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں اداروں پر الزام تراشی ایک عام روایت بن چکی ہے۔ ہر سیاسی جماعت اپنی ناکامیوں کا ملبہ ریاستی اداروں پر ڈالتی ہے، جس سے ان اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف جمہوری اقدار کے خلاف ہے بلکہ قومی یکجہتی کے لیے بھی خطرناک ہے۔ ریاستی ادارے کسی بھی ملک کی سلامتی اور استحکام کے ضامن ہوتے ہیں، لیکن پاکستان میں ان اداروں کو سیاسی تنازعات میں گھسیٹنے کا عمل عام ہو گیا ہے۔
یہ رجحان نہ صرف اداروں کی فعالیت کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان کی غیرجانبداری پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے الزامات کا استعمال عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، مگر اس کے نتائج طویل مدتی طور پر نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ عوام کا اداروں پر اعتماد کم ہونا ایک ایسی صورتحال پیدا کر سکتا ہے جو داخلی اور خارجی خطرات کے لیے زمین ہموار کرے۔
مزید براں، اداروں پر الزام تراشی کا یہ عمل سیاسی ماحول کو مزید پیچیدہ بناتا ہے، جہاں اہم قومی معاملات پر توجہ دینے کے بجائے توجہ سیاسی اختلافات پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور قومی مفاد کو اولین ترجیح دے۔ قومی اداروں کی حفاظت اور ان کی عزت و توقیر کو برقرار رکھنا ہر سیاسی جماعت اور شہری کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور صبر آزما جنگ لڑی ہے۔ اس جنگ میں ہزاروں جانیں قربان ہوئیں اور معیشت کو شدید نقصان پہنچا، لیکن اس کے باوجود پاکستانی عوام اور افواج نے دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنایا۔ آج پاکستان نسبتاً پرامن ملک ہے، اور یہ سب قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
دہشت گردی کے خلاف اس جنگ نے نہ صرف پاکستان کی داخلی سلامتی کو بہتر بنایا ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی بحال کیا ہے۔ فوج، پولیس، اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے انتہائی مشکل حالات میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان قربانیوں نے دہشت گردوں کے مضبوط نیٹ ورک کو توڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
یہ جنگ صرف میدان جنگ تک محدود نہیں تھی بلکہ ذہنی، جذباتی اور معاشی محاذ پر بھی لڑی گئی۔ معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا، اور ہزاروں خاندان اپنے پیاروں سے محروم ہو گئے۔ مگر اس کے باوجود قوم نے اتحاد اور عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف کامیابی حاصل کی۔
آج کا پاکستان اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اگر عوام اور ادارے مل کر کام کریں تو کوئی بھی چیلنج ناقابل تسخیر نہیں رہتا۔ تاہم، اس امن کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل کوششوں اور بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکا جا سکے۔
پاکستانی فوج نے ملکی سالمیت کے تحفظ کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ چاہے وہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہو یا سرحدوں کی حفاظت، فوج نے ہر محاذ پر اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ ان قربانیوں کو نظرانداز کرنا یا ان پر سوال اٹھانا کسی بھی طور مناسب نہیں۔
فوج نے مختلف آپریشنز کے ذریعے نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں بلکہ قدرتی آفات کے دوران بھی عوام کی خدمت کی ہے۔ سیلاب، زلزلے، اور دیگر ہنگامی حالات میں فوج کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ ان قربانیوں نے نہ صرف پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ بنایا ہے بلکہ عوام کے دلوں میں بھی فوج کے لیے احترام اور محبت پیدا کی ہے۔
ان قربانیوں کا تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی فوج نہ صرف ایک پیشہ ور ادارہ ہے بلکہ قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ہمیشہ مستعد رہتی ہے۔ یہ قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی فوج کی قربانیوں کو تسلیم کرے اور ان کی حمایت جاری رکھے۔
بدقسمتی سے، کچھ عناصر دانستہ یا نادانستہ طور پر فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سازشیں بیرونی اور اندرونی دونوں سطحوں پر ہو رہی ہیں، جن کا مقصد قومی دفاع کو کمزور کرنا ہے۔ ان عناصر کا مقصد قومی اداروں کو بدنام کرنا اور عوام کے دلوں میں اداروں کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے۔
بیرونی دشمنوں کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان داخلی انتشار کا شکار ہو تاکہ وہ اپنے مذموم عزائم کو پورا کر سکیں۔ دوسری جانب، کچھ اندرونی عناصر اپنے ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے فوج کو ہدف بناتے ہیں، جس سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچتا ہے۔
عوام اور قیادت کو ان سازشوں کے خلاف ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا، اور دیگر پلیٹ فارمز پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈے کو مسترد کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے اداروں کی حمایت کریں اور ان کی ساکھ کو بچانے کے لیے متحد ہو جائیں۔
قومی دفاع کا مضبوط ہونا ہی ایک مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ فوج کو کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش نہ صرف ملک کے لیے خطرناک ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال میں جہاں قومی یکجہتی اور سیاسی استحکام کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، وہاں یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو حقیقت پسندانہ اور مثبت طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ سیاسی مخالفین کو دشمن سمجھنے کی بجائے، ہمیں ان کے خیالات کو سننے اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف سیاسی ماحول بہتر ہوگا بلکہ عوام کا اعتماد بھی مضبوط ہوگا۔
پاکستان کی ترقی کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں تمام ادارے اور عوام یکجا ہوں۔ اداروں کی عزت اور ان کی آزادی کو یقینی بنانا نہ صرف حکومت کی، بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ جب ہم اداروں کی قوت اور احترام کو سمجھیں گے، تو ملک کی ترقی کے راستے کھلیں گے۔
ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ جب تک قومی مفادات ہماری ترجیح نہیں بنیں گے، ہم اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔ سیاسی، اقتصادی، اور سماجی مسائل کے حل کے لیے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنے وسائل اور توانائی کو صحیح سمت میں استعمال کر سکیں۔
آئیے، ہم سب مل کر پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے کام کریں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں ہر شہری کو اپنی شناخت، آزادی اور حقوق کا مکمل تحفظ حاصل ہو۔ فقط ہم سب کی مشترکہ کوششیں ہی پاکستان کو خوشحال اور طاقتور بنا سکتی ہیں۔
مصنف کا تعارف
یہ مضمون سید محمد حسن علی نے تحریر کیا ہے، جو فاؤنڈیشن یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے دوسرے سمسٹر کے طالب علم ہیں۔ سید محمد حسن علی نے اپنی تعلیم کے دوران میڈیا اور ابلاغ کے مختلف پہلوؤں کو گہرائی سے سمجھنے اور معاشرے پر ان کے اثرات کو اجاگر کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
مصنف کا مقصد نہ صرف اپنی تعلیمی کارکردگی میں بہتری لانا ہے بلکہ صحافت اور ابلاغِ عامہ کے ذریعے عوام کو اہم معلومات فراہم کرنا اور مثبت تبدیلی کے لیے کام کرنا بھی ہے