Sargaram | Newspaper

ہفتہ 04 مئی 2024

ای-پیپر | E-paper

چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کیا، نہ شاہی فرمان کے ذریعے رہا کر سکتے ہیں: وزیراعظم

Share

نگران وزیراعظم کا کہنا ہے کہ 9 مئی کو فوج نے صبر و تحمل سے کام لیا، یہاں کوئی اذیت پسند لوگ نہیں کہ جنہیں چیئرمین پی ٹی آئی سے ذاتی بدلہ لینا ہو، دیگر جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، پی ٹی آئی لیڈر بھی اپنےعلاقوں میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو نہ  نگران حکومت نے گرفتار کیا  ہے اور نہ شاہی فرمان کے ذریعے ان کو رہا کر سکتے ہیں،  چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں زہر دینے کا الزام غیر ذمہ دارانہ ہے، چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں مکمل محفوظ اور ہماری ذمہ داری ہيں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن ہونے جا رہے ہیں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ شفاف الیکشن ہوں، 1970 کے علاوہ کوئی الیکشن ایسا نہیں جسے تنازعے کی طرف دھکیلا نہ گیا ہو، الیکشن سے متعلق تحفظات کے ایک نکتے پر اے پی سی بلانا مجھے ہضم نہیں ہو رہا، اگر الیکشن کے بعد کسی کی شکایت ہے تو اس کیلئے فورم موجود ہے۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ میرے پشتون ہونے کیلئے کسی سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں، افغانستان میں پشتونوں سمیت ہر ایک کیلئے یکساں احترام ہے لیکن میری وفاداری ریاست کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان ریاست سے متعلق میرے بیان کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا، پاکستان، افغانستان کو ایماندارانہ سوچنا چاہیے کہ ایک دوسرے سے کیا توقع رکھتے ہیں۔

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ افغان طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگ پاکستان کے خلاف کہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں، ٹی ٹی پی وسطی ایشیائی ریاستوں میں نہیں بلکہ افغان سرزمین پر موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دو سال قبل جو مذاکرات کا ڈھونگ رچایا گیا تھا تو ٹی ٹی پی کے لوگ کابل میں عملی طور پر ان مذاکرات میں شریک تھے۔ اب یہ فیصلہ افغان طالبان کو کرنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو ہمارے حوالے کرنا ہے یا ان کے خلاف خود کارروائی کرنی ہے۔ یہ بات قابل برداشت نہیں کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کی جائیں اور افغان طالبان تماشا دیکھتے رہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کے علماء نے آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں ٹی ٹی پی سے متعلق موجودہ حکومتی پالیسی کی حمایت کی ہے، کسی کو ریاست سے مذاکرات کرنا ہے تو سب سے پہلے ہتھیار پھینکیں، ہتھیار اٹھانے کا جواز ہی ناجائز ہے، جب ہتھیار چھوڑیں گے تب سوچا جائے گا کب اور کیسے مذاکرات کیے جائیں گے، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بندوق کی نوک پر مذاکرات کریں گے تو یہ غلط فہمی دور کرلیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ امریکا اور دیگر قوتوں کا گھر افغانستان نہیں ہے، گھر کی قوت ان کو گھر سے نکالنا چاہتی ہے، لیکن پاکستان ایک گھر ہے جو میرا ہے اور ٹی ٹی پی بھی اسکو شیئر کرتی ہے۔

ملک بھر میں مقیم غیرقانونی افغان مہاجرین کی ملک بدری سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ریاست کی ذمہ داری لیتے ہیں تو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، کسی رجسٹرڈ افغان مہاجر کو واپس بھیجنے کی پالیسی نہیں، غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جارہا ہے۔

انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ افغان شہریوں کے ساتھ ہم نے بہتر رویہ اختیار کیا ہے، غیر قانونی طور پرمقیم افراد واپس جاکر قانونی طور پر واپس آئیں، موجودہ افغان طالبان حکومت کے بعد پاکستان آنیوالے افغانوں کی کیٹیگری الگ ہے۔

اپنی گفتگو کے دوران سی پیک اور پاک چین تعلقات سے متعلق بات چیت میں انہوں نے کہا کہ پاک چین اسٹریٹجک تعلقات کی تشریحات درست ہیں، چین چاہتا ہے کہ ہماری طرف سی پیک کے دوسرے مرحلے کیلئے تعاون زیادہ ہو۔

فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت سے متعلق بات کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ڈائیلاگ اور طاقت کے استعمال کا وقت ہوتاہے، خصوصاً بچوں کیلیے غزہ کو جہنم بنادیا گیا ہے۔

Share this Article
- اشتہارات -
Ad imageAd image